Mirza Ghalib’s poetry often weaves themes of love with resilience and hope, offering motivation even in the face of heartbreak. His couplets inspire readers to embrace the complexities of love while maintaining strength and perspective.

This verse subtly conveys that love, despite its challenges, is a source of beauty and solace. Ghalib’s poetic wisdom encourages readers to find strength in emotions, making his couplets timeless sources of motivation in matters of the heart.

قطع کیجے نہ تعلق ہم سے
کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی

ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے
بے سبب ہوا غالبؔ دشمن آسماں اپنا

آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالبؔ صریر خامہ نوائے سروش ہے

رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا

ہم ہیں مشتاق اور وہ بے زار
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے

ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی

تجھ سے قسمت میں مری صورت قفل ابجد
تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا

غالبؔ نہ کر حضور میں تو بار بار عرض
ظاہر ہے تیرا حال سب ان پر کہے بغیر

خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے

ہاں وہ نہیں خدا پرست جاؤ وہ بے وفا سہی
جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں

رہی نہ طاقت گفتار اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے

غم ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہوتے تک

غالبؔ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
روئیے زار زار کیا کیجیے ہاے ہاے کیوں

کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند
کس کی حاجت روا کرے کوئی

چاہیے اچھوں کو جتنا چاہیے
یہ اگر چاہیں تو پھر کیا چاہیے