John Elia, one of the most renowned poets of Urdu literature, is known for his deep, melancholic, and thought-provoking love poetry. His verses express the complexities of love, loss, and the human condition with raw intensity. One of his most memorable two-line (couplet) poems captures the essence of unattainable love:
“ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے”
(Thousands of desires, each one so intense it could take my life
Many of my wishes were fulfilled, yet they were still too few.)
In this couplet, Elia conveys the insatiable nature of human desires. His ability to combine profound emotion with brevity makes his poetry timeless. Elia’s work continues to inspire readers, evoking deep feelings of longing, despair, and love.
دل کی تکلیف کم نہیں کرتے
اب کوئی شکوہ ہم نہیں کرتے
کیا کہا عشق جاودانی ہے!
آخری بار مل رہی ہو کیا
کتنی دل کش ہو تم کتنا دلجو ہوں میں
کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے
اور تو کیا تھا بیچنے کے لئے
اپنی آنکھوں کے خواب بیچے ہیں
سوچتا ہوں کہ اس کی یاد آخر
اب کسے رات بھر جگاتی ہے
تمہارا ہجر منا لوں اگر اجازت ہو
میں دل کسی سے لگا لوں اگر اجازت ہو
یارو کچھ تو ذکر کرو تم اس کی قیامت بانہوں کا
وہ جو سمٹتے ہوں گے ان میں وہ تو مر جاتے ہوں گے
بن تمہارے کبھی نہیں آئی
کیا مری نیند بھی تمہاری ہے
میری بانہوں میں بہکنے کی سزا بھی سن لے
اب بہت دیر میں آزاد کروں گا تجھ کو
زندگی ایک فن ہے لمحوں کو
اپنے انداز سے گنوانے کا
میں رہا عمر بھر جدا خود سے
یاد میں خود کو عمر بھر آیا
اب مری کوئی زندگی ہی نہیں
اب بھی تم میری زندگی ہو کیا
کتنے عیش سے رہتے ہوں گے کتنے اتراتے ہوں گے
جانے کیسے لوگ وہ ہوں گے جو اس کو بھاتے ہوں گے
نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم
بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم
یوں جو تکتا ہے آسمان کو تو
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا