Mirza Ghalib, a celebrated Urdu and Persian poet, is renowned for his emotional depth and philosophical insight, particularly in his two-line love poetry. His work blends complexity with simplicity, capturing the essence of love, longing, and heartache.
In these short yet powerful couplets, Ghalib conveyed intense emotions with unparalleled elegance. Each line often reflects a mixture of personal pain and universal themes, allowing readers to connect deeply..
کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملا لیں یا رب
سیر کے واسطے تھوڑی سی جگہ اور سہی
آج ہم اپنی پریشانیٔ خاطر ان سے
کہنے جاتے تو ہیں پر دیکھیے کیا کہتے ہیں
ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
بن گیا رقیب آخر تھا جو رازداں اپنا
کلکتے کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں
اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے
مے سے غرض نشاط ہے کس رو سیاہ کو
اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیئے
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہ کن اسدؔ
سرگشتۂ خمار رسوم و قیود تھا
جس زخم کی ہو سکتی ہو تدبیر رفو کی
لکھ دیجیو یا رب اسے قسمت میں عدو کی
فائدہ کیا سوچ آخر تو بھی دانا ہے اسدؔ
دوستی ناداں کی ہے جی کا زیاں ہو جائے گا
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا
وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو
تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا
اڑنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا
دے مجھ کو شکایت کی اجازت کہ ستم گر
کچھ تجھ کو مزہ بھی مرے آزار میں آوے
رات پی زمزم پہ مے اور صبح دم
دھوئے دھبے جامۂ احرام کے
تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو
مجھ کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں