Poetry of Allama Muhammad Iqbal , a revered poet, philosopher, and thinker, profoundly wove the themes of love and faith into his poetry. Love, for Iqbal, transcends mere human affection and embodies a divine connection that leads to self-realization and spiritual elevation. His concept of Khudi (selfhood) emphasizes love as a driving force for personal and societal transformation.
Faith, in Iqbal’s view, serves as the cornerstone of strength and unity. His works, like Shikwa and Jawab-e-Shikwa, express devotion to God and reflect on the spiritual struggles of humanity. In Bāl-e-Jibrīl, Iqbal intertwines love and faith, urging individuals to seek higher purposes.
Iqbal’s poetry inspires readers to embrace love and faith as transformative forces, making his work timeless and universally relevant.
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
ملے گا منزل مقصود کا اسی کو سراغ
اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
ہر شے مسافر ہر چیز راہی
کیا چاند تارے کیا مرغ و ماہی
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لا الٰہ الا اللہ
امید حور نے سب کچھ سکھا رکھا ہے واعظ کو
یہ حضرت دیکھنے میں سیدھے سادے بھولے بھالے ہیں
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
دل سوز سے خالی ہے نگہ پاک نہیں ہے
پھر اس میں عجب کیا کہ تو بیباک نہیں ہے
جنہیں میں ڈھونڈھتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں
وہ نکلے میرے ظلمت خانۂ دل کے مکینوں میں
مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اڑتے جاتے ہیں
مگر گھڑیاں جدائی کی گزرتی ہیں مہینوں میں
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے
عشق بیچارہ نہ زاہد ہے نہ ملا نہ حکیم
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں