Mirza Ghalib, a luminary of Urdu poetry, is revered for his evocative two-line verses that explore the depths of love and longing. His couplets, or sher, encapsulate profound emotions in just a few words, blending simplicity with philosophical depth.
One of his timeless couplets reads:
“Dil hi to hai na sang-o-khisht, dard se bhar na aaye kyun?
Royenge hum hazaar baar, koi hamein sataye kyun?”
Translated, it expresses: “It’s just a heart, not stone or brick, why wouldn’t it fill with pain?
We’ll cry a thousand times, but why should anyone hurt us?”
Ghalib’s poetry continues to touch hearts with its universal themes of unrequited love, passion, and melancholy, making him a cherished icon in Urdu literature.
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی درد بے دوا پایا
آہ کو چاہیئے اک عمر اثر ہوتے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہوتے تک
ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے انداز بیاں اور
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہوتے تک
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستاے کیوں
پوچھتے ہیں وہ کہ غالبؔ کون ہے
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
میری قسمت میں غم گر اتنا تھا
دل بھی یارب کئی دیے ہوتے
کب وہ سنتا ہے کہانی میری
اور پھر وہ بھی زبانی میری
کعبہ کس منہ سے جاوگے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی