Mir Taqi Mir, often hailed as the “God of Urdu Poetry,” is celebrated for his exquisite portrayal of love in all its nuanced forms. His ghazals capture the tender beauty, anguish, and transcendence of love, making his verses immortal in the hearts of Urdu literature enthusiasts.
Mir’s poetry explores unrequited love, heartbreak, and the delicate interplay of emotions, weaving an intricate tapestry of human experience. His verses are renowned for their simplicity and depth, blending lyrical elegance with profound philosophical undertones. For instance, he writes:
“Ishq ik Mir bhari patthar hai,
Kab ye tujh na-tawan se uthega?”
Through such couplets, Mir conveys the weight of love as a universal, bittersweet truth. His mastery of language and ability to evoke raw emotions ensure his legacy endures, making him a timeless voice in the realm of romantic poetry.
راہ دور عشق میں روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
کوئی تم سا بھی کاش تم کو ملے
مدعا ہم کو انتقام سے ہے
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
نازکی اس کے لب کی کیا کہئے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم
اب جو ہیں خاک انتہا ہے یہ
بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو
ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو
اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میرؔ
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
یاد اس کی اتنی خوب نہیں میرؔ باز آ
نادان پھر وہ جی سے بھلایا نہ جائے گا
کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق
جان کا روگ ہے بلا ہے عشق
پھول گل شمس و قمر سارے ہی تھے
پر ہمیں ان میں تمہیں بھائے بہت
دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا
روتے پھرتے ہیں ساری ساری رات
اب یہی روزگار ہے اپنا
عشق اک میرؔ بھاری پتھر ہے
کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے