Mirza Ghalib, one of the greatest Urdu poets, is celebrated for his profound two-line love poetry (sher), which captures the essence of human emotions in a simple yet powerful way. His couplets weave tales of love, longing, and heartbreak with unmatched elegance.

Ghalib’s poetry reflects the depth of unspoken emotions, such as:
“Ishq par zor nahi, hai yeh woh aatish Ghalib,
Jo lagaye na lage, aur bujhaye na bane.”

This translates to: “Love cannot be controlled; it’s a fire that neither kindles easily nor extinguishes willingly.”

His works, rich in metaphor and philosophy, remain timeless, resonating deeply with readers across generations and reminding us of the universality of love.

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے

عشق نے غالبؔ نکما کر دیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے

اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالبؔ
کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے

رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے

عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا

وہ آئے گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے

نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

بے خودی بے سبب نہیں غالبؔ
کچھ تو ہے، جس کی پردہ داری ہے

رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں