John Elia, the renowned Pakistani poet, is known for his deep and poignant expressions of love, pain, and existential reflection. His two-line poetry, often brief yet powerful, leaves a lasting impact on the heart and mind of the reader. His words touch upon the complexities of love, urging the reader to embrace both its beauty and its sorrow. Elia’s succinct verses reflect a unique blend of romantic idealism and harsh realism, portraying love as a force that can uplift or devastate.
With his sharp yet soulful language, Elia’s two-line motivational love poetry encourages individuals to keep moving forward, despite the struggles and heartbreaks love may bring. His words inspire a deeper understanding of love’s power, urging the reader to find strength in vulnerability and courage in passion.
داد و تحسین کا یہ شور ہے کیوں
ہم تو خود سے کلام کر رہے ہیں
مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا
اس نے گویا مجھی کو یاد رکھا
میں بھی گویا اسی کو بھول گیا
اپنے اندر ہنستا ہوں میں اور بہت شرماتا ہوں
خون بھی تھوکا سچ مچ تھوکا اور یہ سب چالاکی تھی
گو اپنے ہزار نام رکھ لوں
پر اپنے سوا میں اور کیا ہوں
اس سے ہر دم معاملہ ہے مگر
درمیاں کوئی سلسلہ ہی نہیں
ساری گلی سنسان پڑی تھی باد فنا کے پہرے میں
ہجر کے دالان اور آنگن میں بس اک سایہ زندہ تھا
ہم یہاں خود آئے ہیں لایا نہیں کوئی ہمیں
اور خدا کا ہم نے اپنے نام پر رکھا ہے نام
ہم نے کیوں خود پہ اعتبار کیا
سخت بے اعتبار تھے ہم تو
اپنے سبھی گلے بجا پر ہے یہی کہ دل ربا
میرا ترا معاملہ عشق کے بس کا تھا نہیں
ہو کبھی تو شراب وصل نصیب
پئے جاؤں میں خون ہی کب تک
میں بستر خیال پہ لیٹا ہوں اس کے پاس
صبح ازل سے کوئی تقاضا کیے بغیر
جمع ہم نے کیا ہے غم دل میں
اس کا اب سود کھائے جائیں گے
ہم ہیں مصروف انتظام مگر
جانے کیا انتظام کر رہے ہیں
جان من تیری بے نقابی نے
آج کتنے نقاب بیچے ہیں