Mir Taqi Mir love poetry is revered for its depth, emotional intensity, and universal appeal. His ghazals, rich in imagery and symbolism, often explore the complex nature of love, its joys, and its sorrows. Mir’s portrayal of love is not just romantic but also philosophical, reflecting the pain of unrequited love, the beauty of fleeting moments, and the melancholy of separation.
His verses speak to the soul, expressing longing, heartbreak, and the fragility of human emotions with exquisite simplicity. Unlike many poets, Mir does not idealize love; instead, he presents it as a bittersweet experience, filled with both pleasure and suffering. His metaphors and vivid imagery evoke deep emotions, making his poetry resonate with readers across generations.
Mir’s love poetry transcends time and culture, remaining relevant in today’s world. His ability to convey the complexities of the human heart with such grace and insight has cemented his place as one of the most influential poets in Urdu literature
عشق ہی عشق ہے جہاں دیکھو
سارے عالم میں بھر رہا ہے عشق
یوں ناکام رہیں گے کب تک جی میں ہے اک کام کریں
رسوا ہو کر مر جاویں اس کو بھی بد نام کریں
کسو سے دل نہیں ملتا ہے یا رب
ہوا تھا کس گھڑی ان سے جدا میں
مرا جی تو آنکھوں میں آیا یہ سنتے
کہ دیدار بھی ایک دن عام ہوگا
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
دلی کے نہ تھے کوچے اوراق مصور تھے
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی
غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا
دل کے جانے کا نہایت غم رہا
شکوۂ آبلہ ابھی سے میرؔ
ہے پیارے ہنوز دلی دور
اب دیکھ لے کہ سینہ بھی تازہ ہوا ہے چاک
پھر ہم سے اپنا حال دکھایا نہ جائے گا
کاش اس کے رو بہ رو نہ کریں مجھ کو حشر میں
کتنے مرے سوال ہیں جن کا نہیں جواب
میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
ہوش جاتا نہیں رہا لیکن
جب وہ آتا ہے تب نہیں آتا
کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی
ہم نے اپنی سی کی بہت لیکن
مرض عشق کا علاج نہیں