Mir Taqi Mir, hailed as the “God of Urdu Poetry,” is celebrated for his profound and evocative love poetry. Born in 1723 in Agra, Mir’s verses transcend time, encapsulating the pain, beauty, and complexities of love. His ghazals, rich in emotion and linguistic finesse, explore themes of longing, heartbreak, and divine love with unparalleled depth.
What sets Mir apart is his ability to portray the universality of human emotions. In lines like “Ishq ek Mir bhaari patthar hai, kab ye tujh na-tawan se uthta hai”, he delves into the overwhelming weight of love. His diction, imbued with simplicity and mysticism, resonates with lovers across centuries.
Mir’s poetry reflects not just personal anguish but also the turbulence of his era, making it deeply relatable and timeless. His verses remain a beacon for those seeking solace and understanding in matters of the heart, solidifying his legacy as one of the greatest poets of love.
روز آنے پہ نہیں نسبت عشقی موقوف
عمر بھر ایک ملاقات چلی جاتی ہے
جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم
سو اس عہد کو اب وفا کر چلے
جس سر کو غرور آج ہے یاں تاجوری کا
کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا
لگا نہ دل کو کہیں کیا سنا نہیں تو نے
جو کچھ کہ میرؔ کا اس عاشقی نے حال کیا
آدم خاکی سے عالم کو جلا ہے ورنہ
آئینہ تھا تو مگر قابل دیدار نہ تھا
چمن میں گل نے جو کل دعوی جمال کیا
جمال یار نے منہ اس کا خوب لال کیا
عشق ہے طرز و طور عشق کے تئیں
کہیں بندہ کہیں خدا ہے عشق
مصائب اور تھے پر دل کا جانا
عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے
کچھ نہیں سوجھتا ہمیں اس بن
شوق نے ہم کو بے حواس کیا
میرؔ جی زرد ہوتے جاتے ہو
کیا کہیں تم نے بھی کیا ہے عشق
شفق سے ہیں در و دیوار زرد شام و سحر
ہوا ہے لکھنؤ اس رہ گزر میں پیلی بھیت
سراپا آرزو ہونے نے بندہ کر دیا ہم کو
وگرنہ ہم خدا تھے گر دل بے مدعا ہوتے
خدا کو کام تو سونپے ہیں میں نے سب لیکن
رہے ہے خوف مجھے واں کی بے نیازی کا
جور کیا کیا جفائیں کیا کیا ہیں
عاشقی میں بلائیں کیا کیا ہیں
سب پہ جس بار نے گرانی کی
اس کو یہ ناتواں اٹھا لایا