Mir Taqi Mir, the master of Urdu poetry, is celebrated for his poignant exploration of love and sorrow. His ghazals often depict the pain of unrequited love and the emotional turmoil of separation, resonating with readers across generations.
One of his famous couplets, “Ishq mujhko nahi wehshat hi sahi, meri wehshat teri shohrat hi sahi,” reflects the depth of his anguish, portraying love as both torment and transcendence. Mir’s poetry skillfully combines raw emotion with vivid imagery, capturing the heartbreak that comes with love’s complexities.
Living in an era of personal and societal upheaval, Mir’s verses express not just individual grief but also the collective melancholy of his time. His ability to transform pain into beautiful poetry has made his work timeless. Mir’s sad love poetry continues to touch hearts, offering solace to those who find comfort in the shared experience of love and loss
روئے سخن ہے کیدھر اہل جہاں کا یا رب
سب متفق ہیں اس پر ہر ایک کا خدا ہے
کپڑے گلے کے میرے نہ ہوں آب دیدہ کیوں
مانند ابر دیدۂ تر اب تو چھا گیا
گر اس کے اور کوئی گرمی سے دیکھتا ہے
اک آگ لگ اٹھے ہے اپنے تو تن بدن میں
داغ آنکھوں سے کھل رہے ہیں سب
ہاتھ دستہ ہوا ہے نرگس کا
دل کہ یک قطرہ خوں نہیں ہے بیش
ایک عالم کے سر بلا لایا
احوال میرؔ کیوں کر آخر ہو ایک شب میں
اک عمر ہم یہ قصہ تم سے کہا کریں گے
بزم عشرت میں ملامت ہم نگوں بختوں کے تئیں
جوں حباب بادہ ساغر سرنگوں ہو جائے گا
چلتے ہو تو چمن کو چلئے کہتے ہیں کہ بہاراں ہے
پات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں کم کم باد و باراں ہے
مرتا تھا میں تو باز رکھا مرنے سے مجھے
یہ کہہ کے کوئی ایسا کرے ہے ارے ارے
صد موسم گل ہم کو تہ بال ہی گزرے
مقدور نہ دیکھا کبھو بے بال و پری کا
اس کی تو دل آزاری بے ہیچ ہی تھی یارو
کچھ تم کو ہماری بھی تقصیر نظر آئی
تن کے معمورے میں یہی دل و چشم
گھر تھے دو سو خراب ہیں دونوں
اس دشت میں اے سیل سنبھل ہی کے قدم رکھ
ہر سمت کو یاں دفن مری تشنہ لبی ہے
کچھ نہ دیکھا پھر بجز یک شعلۂ پر پیچ و تاب
شمع تک تو ہم نے دیکھا تھا کہ پروانہ گیا
پاؤں کے نیچے کی مٹی بھی نہ ہوگی ہم سی
کیا کہیں عمر کو اس طرح بسر ہم نے کیا