John Elia, one of the most celebrated Urdu poets, is renowned for his poignant and thought-provoking two-line love poetry. His verses capture the depths of love, loss, and longing, resonating with readers across generations. Elia’s unique style combines eloquent language with an intense emotional undertone, often expressing complex feelings in just a few words. His poetry is marked by a sense of melancholy and existential reflection, as he often explores themes of unrequited love and the fragility of human relationships.
Some of his memorable two-line poems reflect his mastery over the craft, such as:
“اب تکلف میں جو ہنر تھا وہی ہم بھی سیکھ گئے
کیسا تھا، کس قدر تھا، بس پھر ہم بھی سیکھ گئے”
Through these lines, Elia conveys the complexities of emotional growth and self-awareness in the face of love’s challenges, making his work timeless and deeply influential.
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
زندگی کس طرح بسر ہوگی
دل نہیں لگ رہا محبت میں
ساری دنیا کے غم ہمارے ہیں
اور ستم یہ کہ ہم تمہارے ہیں
بہت نزدیک آتی جا رہی ہو
بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے
کس لیے دیکھتی ہو آئینہ
تم تو خود سے بھی خوب صورت ہو
کیا ستم ہے کہ اب تری صورت
غور کرنے پہ یاد آتی ہے
کیسے کہیں کہ تجھ کو بھی ہم سے ہے واسطہ کوئی
تو نے تو ہم سے آج تک کوئی گلہ نہیں کیا
مستقل بولتا ہی رہتا ہوں
کتنا خاموش ہوں میں اندر سے
مجھے اب تم سے ڈر لگنے لگا ہے
تمہیں مجھ سے محبت ہو گئی کیا
علاج یہ ہے کہ مجبور کر دیا جاؤں
وگرنہ یوں تو کسی کی نہیں سنی میں نے
ہم کو یاروں نے یاد بھی نہ رکھا
جونؔ یاروں کے یار تھے ہم تو
اس گلی نے یہ سن کے صبر کیا
جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں